تحریر:آصف خان آج ہمارے بہت پرانے استاد متحرم کا فون آگیا حال احوال پوچھنے کے بعد نرسنگ کی تعلیم کے گرتے ہوۓ معیار پر انتیاٸی رنجیدہ تھے اور مجھ سے استفسار کیا کہ آپ اتنا اچھا لکھتے ہوں اس پرکیوں خاموش ہے بے شک میرا نام آپ لکھ لیے جو کرپٹ مافیا اس نوبل پشے کو تباہی اور بربادی کی طرف دکھیل رہے۔بات ان کی بھی کسی حد تک صیح تھی وہ پاکستان نرسنگ کونسل جہاں پر آپ اپنا کارڈ (Renew )کے لیے بھی بیجھے تو کٸی مہینے لگ جاتے ہے (Renew) ہونے میں وہی اسی نرسنگ کونسل نےایک قلیل مدت میں ریکارڈ نرسنگ اسکولوں کورجسٹریشن دے دی ۔جو پاکستان بننے کے بعد پی این سی نے اگر اسکول رجسٹرڈ کٸے تو وہ اس عرصے میں کٸے جن میں سے کچھ تو بہتر ہوگے یا اس قابل ہوگے کہ وہ رجسٹرڈ کٸے جاٸیں۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا بہت سارے ایسے اسکول ہے جن کی اپنی فکلیٹی تک مکمل نہیں اس کے باوجود رجسٹر کرنا کہی شک وشہبات کو جنم دیتاہے۔استاد متحرم نے بتایا کوٸی فوزیہ مشتاق نامی خاتون جو کہ پی این سی کی رجسٹرار آٸی ہے۔ان کے آنے بعد تو جیسے نرسنگ اسکولوں کا اتوار بازار لگ گیا ہوں رجسٹریشن کا ایک تانتا بندھ گیا ۔اس وقت ساٸیٹ ایریا میں تقریبا دس کے قریب نرسنگ اسکول ہے۔جو ایک طرف نرسنگ کے تعلیم کے معیار کا گرنے کا باعث ہے تو دوسری جانب نرسنگ کی تعیلم کو مہنگا کرنے کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔جو بھاری بھر فیسیں وصول کر رہےہیں۔ پاکستان ذہین، صلاحیتوں سے مالا مال اور محنتی لوگوں کا ملک ہے اور انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ نوبل انعامات اور دوسرے بین الاقوامی ایوارڈز اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ کامیابیاں ضروری سہولتوں سے محروم اور کمزور تعلیمی نظام کے باوجود حاصل کی گئیں۔ اگر ہمارے ہاں نرسنگ کی تعلیم عالمی معیارکے مطابق سستی اور عام ہوتی اور اس شعبے میں ہر کام میرٹ پر ہوتا تو ہمارے طالب علم اپنے کارہائے نمایاں سے ملک کو تعمیر و ترقی کی بلندیوں پر پہنچاسکتے ہے۔ مگر بد قسمتی سے جس طرح دوسرے شعبوں میں ہم وقت کے تقاضے پورے نہیں کرسکے اسی طرح نرسنگ کے تعلیمی میدان میں کما حقہ ترقی نہیں کرسکے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی اداروں میں میرٹ پر تقرریوں کا فقدان ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مفاد عامہ کے مقدمات کی سماعت کے دوران چاروں صوبوں میں بہت سے شعبوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں، گھپلوں اور خامیوں کا نوٹس لیا ہے، ان میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ لاہور میں میرٹ کے برخلاف تقرریوں کے حوالے سے ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران انہوں نے چار سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو مستعفی ہونے کا حکم دیتے ہوئے سرچ کمیٹی کو 6ماہ میں میرٹ پر ان کی جگہ مستقل تقرریوں کی ہدایت کی تھی۔ تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، ان کے حکم کی تعمیل میں مستعفی ہوگئے جبکہ ایک کے انکار پر اس کو معطل کردیا گیا۔جناب چیف جسٹس نے میرٹ کے برخلاف تقرریوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے تعیلم کا بڑا غرق کردیا گیاہے۔ درحقیقت صرف اکیڈمک میں نہیں پروفیشن تعلیم نرسنگ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک نرسنگ اسکول کالج اںسرکاری تھے۔بعد میں اچھے نجی اور مشنری ادارے بھی وجود میں آٸے تھے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرریوں اور طلبہ کے داخلوں سمیت تمام امور میں میرٹ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تعلیم تجارت بننے لگی۔کسی بھی علاقے کے بااثر لوگ سکولوں میں زیادہ تر اپنی پسند کے نالائق لوگوں کو رکھوالیتے ہیں بعض جگہوں پر اسکول محض کاغذات میں ظاہر کئے جاتے ہیں اورحقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ان گھوسٹ اسکولوں میں کاغذی ٹیچر بھی ہوتے ہیں۔ ایسے اسکولوں پر چھاپے مارنے جانے چاٸیے،نرسنگ کالجوں اور اسکولوں میں خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی، میرٹ پر تقرریاں کم ہی ہوتی ہیں۔ نجی شعبے میں بھاری فیسیں وصول کرنے والے اسکولوں اور کالجوں کی جو بھر مار نظر آتی ہے ان میں اکثر معمولی معاوضوں پر میرٹ پر پورا نہ اترنے والے ٹیچر رکھ لئے جاتے ہیں ۔ نرسنگ کے لیے اتنا تحقیقی کام نہیں ہو رہا جو کسی نرسنگ کالج اور اسکول کا لازمی خاصہ ہے۔ میرٹ کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہمارے اکثر ذہین و ہونہار سرمایہ باہر جانے پر مجبور ہیں یہ صورتحال یقیناً ملک میں ’نرسنگ تعلیم کا بیڑہ غرق‘‘کرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے نرسنگ کے تعلیمی نظام کا از سر نو حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے۔ معیار تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تدریسی اور انتظامی شعبوں میں سیاسی تقرریاں بند کی جائیں اور خالصتاً میرٹ پر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔ نرسنگ کالجز اور اسکولوں میں اساتذہ کے لئے گریجیوٹ اور ماسٹر ہونا لازمی قرار دیا جائے، سرکاری نرسنگ کے اداروں کا چیک اینڈ بیلنس کو سخت اور بہتر کیا جاٸے ۔پی این سی سرپراٸز وزٹ کریں نجی نرسنگ کے اسکولوں کی فیکلٹی کا اعلیٰ معیار مقرر کیا جائے جو وہاں موجود ہوں نہ کہ اعزازی اور وزیٹنگ ہوں۔ان پر پورا نہ اترنے والے اداروں کی فی الفور رجسٹریشن منسوخ کردی جائے۔ نرسنگ کی تعلیم کے شعبے کو موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی اصلاحات پر فی الفور کام شروع کر دیا جائے تاکہ نوبل پیشے کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکیں۔
BSN at College of Nursing NICH: A Success Story Needed to be Replicated in Public Sector Nursing Institutes
By: Shabir Hussain The College of Nursing, National Institute of Child Health (CON-NICH), has achieved a remarkable milestone by becoming the first institute under Health Department Sindh to complete 04-Yr Nursing Degree Program with thumping success. Not only did it complete the course on time, but also excelled in education, training, and professionalism at par with other best nursing colleges of Sindh. It is noteworthy that in 2019, when PNMC,the Federal and Provincial Governments phased out the Three-Year General Nursing Diploma and introduced a four-year degree program, all colleges under provincial government management across the country lagged behind by one year without induction. However, Nursing College NICH stood out, achieving the first admission in year 2020. Their first batch of BSN had achieved a 100% passing rate and commenced one year internship. They are now conducting Evidence-Based seminars on final research papers of the second batch of Semester VIII. The...
Comments
Post a Comment
Give your Comments here... اپنی رائے کا اظہار یہاں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔