تحریر :آصف خان
امیرِ کاروانِ نرسنگ محترمہ امت الانیس کو مرحومہ لکھتے ہوئے دل مغموم ہورہا ہے۔ ایک شجرسایہ دارجس کے سایہ عاطفت تلے کہیں نرسنگ کے طلبا و طالبات نے گزار دئیے ‘ اس مہربان چھائوں سے اچانک محروم ہوجانامیرے لیئے ہی کیاان کے متعلقین میں سے کسی کے لئے بھی کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں۔ میڈم امت الانس کی رحلت نرسنگ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔اللہ پاک ہم پرہمارے بڑوں اور اساتذہ کا سایہ قاٸم رکھیں۔ کیونکہ اس سال ہم نرسنگ کے بہترین اساتذہ سے محروم ہوگٸے ہے جن میں پی کے چانڈیو سر سرور قادری اور اب میڈم امت الانیس ۔ ان کی رحلت سے ہم اچانک ایک شفیق بزرگ اورسائبان سے محروم ہوگٸے ہے۔
آج ہرایک آنکھ اشکبار ہے۔وہ علم کے گلدستے کی مانند تھی آج جب انکا جنازہ اٹھا تو انکے طلبانےجنازے کو کندا دیا جو کسی بھی طور پراعزاز سےکم نہیں۔ یہ وہ ایک عظیم خاتون تھی۔آپ نے پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے پاکستان نرسنگ فیڈریشن پھر اسکی رجسٹریشن اس کے منشور اس کے اغراض و مقاصد لکھےاور نرسنگ کے کریکیولم کو ڈیزائن کیا۔میڈم کی نرسنگ کے لیے گراں قدر خدمات تھی۔آپ نے میل نرسنگ کے لیے میڈم علمیہ کا بھرپھور ساتھ دیا تھا۔
وہ ایک بلند پائے کی استاد تھی، آج نرسز ایک عظیم استاد سے محروم ہوگئے۔
کوئی شک نہیں کہ ہم سب کو یہ دنیا چھوڑ کے جانا ہے مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو سوچ کا ایک دائرہ بناتی ہیں ، اور ایک بڑا طبقہ ان کی سوچ سے متاثر ہوجاتا اور یوں ایک طبقے کی کردار سازی ہوتی ہے ، محترمہ امت الانس بھی ایسی ہی راہنما شخصیت تھیں، علم اور زبان پر ان کی گرفت بڑی مضبوط اور وہ زندگی کو مذہبی خطوط پر استوار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ بلاشبہ امت الانس کی شخصیت بے بہا خوبیوں کا خزانہ لیے ہوئے تھی۔ وہ بجا طور پر نرسنگ کادرخشندہ ستارہ تھیں۔پچاس سال سے زیادہ عرصے تک نرسنگ کی دنیا میں اپنی چمک دمک سے علمی و خدمتی دنیا کو منور رکھا۔ وہ از خود تو اس دیس چلی گئیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آیا کرتا لیکن وہ اپنی خوبصورت پیغام طلبا کی صورت میں حسین جھومر چھوڑ گئی ہیں جو نرسنگ کی دنیا میں انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔ امت الانس کی رحلت سے نرسنگ کا ایک دور کا اختتام ہوگیا ، ایک عہد تمام ہوا، علم و خدمت کا سنہری باب بند ہوگیا۔
بقول حمزہ حامی سرائے ادب کی آخری مسافر ، دنیائے ادب کا ایک عظیم درخشاں ستارہ ، ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
میڈم کی زندگی کا سفرجو ہندوستان سے شروع ہوا تھا جو پاکستان کے شہر کراچی میں 30- 12 -2018 کا٨٠ سال نرسنگ کے علم و ادب کی دنیا میں آب و تاب دکھانے کے بعداختتام کو پہنچا لیکن اپنے پیچھے ایسی روشن مثال چھوڑ گیا جو امت الانس کی یاد ایک طویل عرصہ تک دلاتا رہے گا۔
آج ٹوٹا ہے علم کا بڑا روشن ستارہ
آج بچھڑی ہے اک ماں نرسوں سے میں انھیں مدر ٹریسا سمجھتا ہوں ، میرے نزدیک مدر ٹریسامامتا کی علامت ہے اور میڈم کی شخصیت کا اگر نچوڑ بیان کیا جائے تو وہ ایک ہی لفظ یعنی مامتا میں سمویا جاسکتا ہے۔ سراپا محبت ، سراپا شفقت، دعائیں ہی دعائیں! کوئی چھوٹا ہو یا بڑا،ان کے سامنے آتا تھا تو ایک معصوم سا بچہ بن جاتا تھا جو میڈم سے محبتیں ، دعائیں اور شفقتیں سمیٹ کر جاتا تھا۔اللہ پاک میڈم کی مغفرت فرماٸیں آمین۔۔۔
Comments
Post a Comment
Give your Comments here... اپنی رائے کا اظہار یہاں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔