اس وقت پاکستان میں بہت سے ڈپلومہ ہولڈر نرسز جلد سے جلد پوسٹ آر این بی ایس این ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جلدی کی بنیادی وجہ یہ ہے ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تازہ ترین نوٹیفیکیشن کے مطابق 2026 کے بعد پوسٹ آر این بی ایس این ڈگری پروگرام میں داخلہ بند کر دیا جائے گا۔
اس پابندی کی وجہ یہ ہے کہ پوسٹ آر این بی ایس این ایک دو سالہ سالہ بیچلر ڈگری پروگرام ہے اور پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سارے دو سالہ بیچلر ڈگری پروگرام بند کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اکثر دو سالہ ڈگری پروگرام بند کر دیے گئے ہیں لیکن نرسز اور مڈوائیوز کو سہولت مہیا کرنے کے لیے 2026 تک پوسٹ آر این بی ایس این (نرسنگ) اور پوسٹ آر اینڈ بی ایس ایم (مڈوائفری) پروگرامز جاری رکھے جائیں گے۔
لیکن بہت سے ڈپلومہ ہولڈر نرسز پوسٹ آر این بی ایس این ڈگری پروگرام میں ایڈمیشن نہیں لے سکتے۔ کیوں کہ یا تو ان کے ادارے کی طرف سے ان کو چھٹی نہیں ملتی یا پھر وہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے چھٹی افورڈ نہیں کر سکتے۔
انہی مجبوریوں کو کیش کرنے کے لئے ایک نیٹورک سرگرم ہو ہوگیا۔ اس نیٹ ورک کا حصہ کچھ دو نمبر نرسنگ سکول ہیں اور کچھ ان کے سہولت کار۔ دو نمبر نرسنگ اسکول بنا کوئی کلاس اٹینڈ کیے ان نرسز کو پوسٹ ایم بی بی ایس ایس کی ڈگری تقسیم کر رہے ہیں۔ اور سہولت کار ملک کے مختلف حصوں سے نرسز کو ان اداروں کی سہولیات سے متعارف کروا رہے ہیں۔
اور یوں یہ نرسز بنا کسی تعلیم و تربیت کے پوسٹ آر این بی ایس این کی ڈگری گھر بیٹھے حاصل کر رہی ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، بیرون ملک مقیم نرسز کو بھی یہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔
اس طرح سے ڈگری حاصل کرنے کو آن لائن ڈگری کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستان نرسنگ کونسل یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کسی بھی نرسنگ پروگرام کو مکمل طور پر آن لائن چلانے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح کی ڈگری کو عرف عام میں بلوٹوتھ ڈگری بھی کہا جاتا ہے۔ |
بلوٹوتھ ڈگری سے مندرجہ ذیل مسائل جنم لے رہے ہیں۔
پہلا یہ کہ ان نرسز کلاسیز اٹینڈ نہیں کی ہوئی ہوتی، اس لئے ان کو کاغذ کا ٹکڑا تو مل جاتا ہے لیکن ان کے علم و مہارت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اور یوں کلینکل معاملات ہوں یا نرسز کی تعلیم کے معاملات، بلوٹوتھ ڈگری ہولڈر ہر جگہ ترقی کے بجائے تنزلی کا باعث بنتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان نرسز کے پیسے سہولت کار ہڑپ کر جاتے ہیں اور ان کو کافی عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایڈمیشن تو اصل میں ہوا ہی نہیں تھا۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ دو نمبر ادارے اس طرح کے بلوٹوتھ طالبعلموں کی طرف سے کلاسز اٹینڈ نا کرنے پر فائلوں میں خانہ پوری کی خاطر ایکسپلینیشن لیٹر لگا کر رکھتے ہیں۔ اگر کبھی سختی ہو جائے تو وہ ان طالب علموں کو ٹرمینیٹ کر دیتے ہیں۔ اور یوں ان کی دی ہوئی فیس ہڑپ کر جاتے ہیں۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اگر بلیوٹوتھ ڈگری مل بھی جائے تو بھی ان نرسز کے مسائل ختم نہیں ہوتے۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والی نرسز اگر ڈیوٹی کسی بڑے شہر میں کر رہی ہوں اور پوسٹ آر این بی ایس این ڈگری کسی دور دراز کے دو نمبر ادارے سے حاصل کر رہی ہوں تو جب وہ اپنے ادارے میں ترقی پانے کے لئے وہ ڈگری جمع کروا تے ہیں تو ان کے اپنے ادارے کے لوگ ان کی ڈگری پر سوالات اٹھاتے ہیں اور عدالت میں کیس کر دیتے ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں دو شہروں میں کس طرح سے حاضر تھے۔ اور یوں عدالتی کیسز کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان کی ترقی بھی نہیں ہو پاتی۔
اس سارے تناظر میں ایک طرف یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے غیر معیاری اداروں کی نگرانی، معیار کی بہتری، یا بندش کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ڈپلومہ ہولڈر نرسز کو معیاری پوسٹ آر این بی ایس این ڈگری حاصل کرنے کے لیے سہولیات مہیا کی جائیں۔ |
Comments
Post a Comment
Give your Comments here... اپنی رائے کا اظہار یہاں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔