جولائی کی 26 تاریخ کو میڈیکل وارڈ 4 میں نائٹ ڈیوٹی پر موجود فیمیل چارج نرس پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی گئی، نازیبا زبان استعمال کی گئی اور قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ چارج نرس نے ضروری نرسنگ کیئر دینے کے بعد مریض کو آکسیجن سلنڈر کے ساتھ سی ٹی سکین کے لئے بھیج دیا۔ مریض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر بھی مریض کے ساتھ سی ٹی سکین کے لئے گیا۔ معمول کے مطابق، ڈیوٹی پر موجود سینٹری ورکر نے آکسیجن سلنڈر کے عیوض مریض کے اٹینڈنٹ کا سروس کارڈ وارڈ میں رکھ لیا۔
چارج نرس کا قصور یہ تھا کہ کافی دیر بعد مریض کا اٹینڈنٹ اپنا سروس کارڈ واپس لینے آیا تو اس نے یہ پوچھ لیا کہ مریض اور آکسیجن سلنڈر کہاں ہیں۔ جس پر مریض کا اٹینڈنٹ آگ بگولا ہو گیا اور کہا کہ تم نے میرے مریض کو مارا ہے۔ اس نے چارج نرس پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی، انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور گولی مارنے کی دھمکی دی۔ چارج نرس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ مریض ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ سے ایمرجنسی میں شفٹ ہوگیا تھا جہاں اس کا انتقال ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے اگلے دن پمز نرسنگ ایسوسی ایشن کے ممبران، وارڈ کی ہیڈ نرس، اور چیف نرسنگ سپریٹینڈنٹ کے ہمراہ متاثرہ چارج نرس نے اپنی درخواست پمز ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو جمع کرائی۔ جس پر ای ڈی صاحب کا رو یہ نہایت ہ مثبت تھا۔ انہوں نے متاثرہ نرس کو تسلی دی اور اس پولیس اہلکار کے بارے میں معلومات حاصل کر کے متعلقہ فورم پر شکایت ارسال کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ ای ڈی صاحب سے پمز میں نرسز، پیرامیڈکس اور سپورٹنگ سٹاف کی شدید کمی کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئیے ہر سطح پر کوشش کر رہے ہیں جبکہ اتوار کے دن بھی اسی سلسلے میں ان کی ایک میٹنگ ہے۔
اس واقعے کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
1.
پمز تیسرے درجے کا ایک بڑا ہسپتال ہے جس میں اکثر مریضوں کو تشویشناک حالت میں لایا جاتا ہے۔ جہاں پر ہزاروں مریض صحتیاب ہو کر جاتے ہیں وہیں دن میں کئی اموات بھی ہوتی ہیں۔ مریض کی وفات کی صورت لواحقین کا ایسا طرز عمل کسی طور قابل قبول نہیں۔
2.
حسب معمول، وارڈ کے 40 مریضوں کے لئے صرف ایک نرس ڈیوٹی پر موجود تھی۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق وارڈ کے ہر 10 مریضوں کے لئے ایک نرس ہونی چاہیے۔ جبکہ مذکورہ وارڈ کسی آئی سی یو سے کم نہیں، کیوں کہ اس میں زیادہ تر مریض تشویشناک حالت میں ہوتے ہیں۔
3.
نرسز کی کمی کے ساتھ ساتھ، پمز میں پیرا میڈیکل سٹاف اور سپورٹنگ سٹاف کی بھی شدید کمی کی وجہ سے نرسز کا ورک برڈن کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور کام کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔
4.
اس واقعے میں نرسز اور عملے کی شدید کمی کے باوجود ڈیوٹی پر موجود نرس کی طرف سے کوئی غفلت سامنے نہیں آئی جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے ساتھ ایسا رویہ کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ پمز نرسنگ ایسوسی ایشن اس عمل کی شدید مذمت کرتی ہے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔
5.
پمز میں گزشتہ کئی سالوں سے نرسز، پیرامیکل سٹاف اور دیگر سٹاف کی تعناتیوں کے اعلانات ہونے اور پھر ان اعلانات کے منسوخ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ نئے ڈپارٹمنٹ تو بن رہے ہیں لیکن نا پہلے سے موجود خالی آسامیاں پُر ہو رہی ہیں اور نا نئی آسامیاں کریئیٹ کی جا رہی ہیں۔ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اور عملے کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ مریضوں اور لواحقین کی توقعات میں دن با دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ ہر آنے والی حکومت اصل مسائل حل کرنے کے بجائے پمز کے ساتھ نئے تجربات شروع کر دیتی ہے۔
6.
یہاں پر یہ حقیقت واضع کرنا بھی ضروری ہے کہ مذکورہ واقعے میں تو چارج نرس کی کوئی غلطی سامنے نہیں آئی لیکن نرسز اور دوسرے عملے کی شدید کمی کی وجہ سے جان لیوا غلطیاں بھی سر زد ہو سکتی ہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت اور گزشتہ حکومت کے اعلی عہدیدار ان پر عائد ہوتی ہے جن کی ناقص پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندی کی بدولت یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، سب نرسز سے درخواست ہے کہ وہ مریضوں اور لواحقین سے بہترین رویے سے پیش آئیں۔
پمز نرسنگ ایسوسی ایشن
Comments
Post a Comment
Give your Comments here... اپنی رائے کا اظہار یہاں کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔